ڈرامہ تیرے بِن کے انڈیا میں ’ری میک‘ کی خبریں: ’میرب کہاں سے لاؤ گی اِیکتا، یہ کردار صرف یمنیٰ زیدی ہی ادا کر سکتی ہے‘

– BBC NEWS URDU

اب تیرے بن دس سال چلے گا، ڈش ڈش دھوم تانا نا نا کے ساؤنڈ کے ساتھ اور مرتسم مر مر کر پھر زندہ ہو گا۔‘

یہ معروف پاکستانی ڈرامے ’تیرے بِن‘ کے انڈین ری میک کی خبر کے نیچے ایک ’دل جلے‘ صارف کا تبصرہ ہے۔ اور اس تبصرے سے نا صرف پاکستانی بلکہ انڈین ناظرین کی اکثریت متّفق نظر آتی ہے۔

اس ڈرامے کو پسند کرنے والوں کی تعداد حقیقت میں اُن سے کہیں زیادہ ہے جنھوں نےڈرامے کو کروڑوں ویوز دے کر مقبولیت کی انتہاؤں تک پہنچا دیا۔ اور ان میں انڈین فینز کی بھی ایک کثیر تعداد موجود ہے۔

’مرتسم‘ اور ’میرب‘ کے کرداروں میں وہاج علی اور یمنیٰ زیدی سنہ 2023 میں گوگل پر پاکستانی ڈراموں کی مقبول ترین جوڑی کی سرچ میں ٹاپ پر تھے۔ ان پر کئی میمز بنیں اور انڈین ریویو چینلز نے ایکٹنگ اور ڈائریکشن میں انھیں پورے پورے نمبر دیے۔

ڈرامے کے پلاٹ کے غیر معمولی اور بعض اوقات غیر حقیقی موڑ، او ایس ٹی کے ساتھ ’فلمی‘ انداز کے مناظر اور کہانی سے زیادہ کرداروں کی زبردست ’کیمسٹری‘ شاید وہ عوامل ہیں جو انڈین ناظرین کو مانوس لگے اور انھوں نے اس ڈرامے کو پسند کیا۔

انڈین میڈیا سے جاری ہونے والی خبر کی تفصیل یوں ہے کہ 2023 کے میگا ہٹ ڈرامے ’تیرے بن‘ کے لیے معروف ٹی وی پروڈیوسر ایکتا کپور نے ’کلرز ٹی وی‘ کے ساتھ مل کر اس کا انڈین ورژن بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کے لیے مرکزی کردار ادا کرنے کے لیے اداکاروں کے نام بھی فائنل کر لیے گئے ہیں۔

البتہ ری میک کی خبروں کے حوالے سے اس ڈرامے (تیرے بِن) کے پروڈیوسر عبداللہ کادوانی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ری میک کی اطلاعات اُن تک پہنچی ہیں لیکن اس بارے میں ان سے باضابطہ طور پر ابھی رابطہ نہیں کیا گیا اور پروڈیوسرز یا چینل سے کسی قسم کی اجازت نہیں لی گئی۔

عبداللہ کادوانی اور ساتھی پروڈیوسر اسد قریشی کے بیان کے مطابق انھیں ’خوشی ہے کہ ’تیرے بن‘ نے دنیا بھر میں ناظرین اور پروڈیوسرز کو متاثر کیا لیکن کسی بھی ری میک یا موافقت کے لیے انتہائی اہم ہے کہ قانونی اور اخلاقی راستہ اپنایا جائے۔‘

تیرے بن کے پروڈیوسر اس کا پارٹ ٹو بنانے کا اعلان پہلے ہی کر چکے ہیں


دونوں ممالک میں شائقین کا ردِعمل

حایقہ زائد نامی صارف نے ایک انسٹاگرام پر اس خبر کی پوسٹ پر کہا ’بہن یہ ڈرامہ نہیں تھا وہاج اور یمنی کی کیمسٹری تھی اس لیے اپنا وقت اور پیسہ برباد نہ کریں۔‘
مومنہ نامی صارف نے بھی ان سے اتفاق کیا اور کہا کہ ’اس ڈرامے کا پلاٹ فضول تھا، یہ صرف مرکزی کرداروں کی کیمسٹری کی وجہ سے بچ گیا۔ اپنا پیسہ برباد کریں گی۔‘

سونو کمار بھی اُن لوگوں میں شامل ہیں جنھیں مرکزی کردار ادا کرنے والے فنکار بہت پسند ہیں۔ ان کا کہنا تھا ’میرب کہاں سے لاؤ گی ایکتا؟ یہ کردار صرف یمنیٰ ہی ادا کر سکتی ہیں۔ ان کے علاوہ کوئی نہیں۔‘

ایک انڈین فین دیویا سنہا کا کہنا تھا ’ایک اور کلاسک برباد ہونے کے دہانے پر ہے۔‘

معاذ رضوان نے سوال کیا کہ ’وہ انڈین ناظرین کو اس ڈرامے کا پاکستانی ورژن ہی کیوں نہیں دکھا دیتیں۔‘

کچھ صارفین ایسے بھی تھے جنھیں تیرے بن کے سنسنسی خیز مناظر میں انڈین ڈراموں کو جھلک نظر آتی تھی اور اب وہ انڈیا میں اس ڈرامے کے ری میک کی خبر پر حیران ہیں اور وہ ایکتا کپور کا ضمیر جھنجوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

فہد نامی صارف کا کہنا تھا ’بہن تمہارے ہی ڈراموں کے مناظر جوڑ کر یہ ڈرامہ بنایا تھا۔ اب آپ ہی اسے کاپی کر رہی ہیں، حد ہے۔‘

ایکتا کپور اس سے پہلے بھی پاکستانی ڈراموں کے انڈین ورژن بنا چکی ہیں

انڈیا میں پاکستانی سیریلز کے بڑھتے ری میک
انڈیا میں اس سے پہلے سونی ٹی وی سے ’کچھ تو لوگ کہیں گے‘ کے نام سے ڈرامہ بنا جس کی کہانی پاکستان میں اسی کی دہائی کے مقبول ترین ڈرامے ’دھوپ کنارے‘ سے ملتی جلتی ہے۔

اس ری میک پر لوگوں نے کچھ تو کہنا ہی تھا کہ کہاں حسینہ معین کے حقیقت کے قریب ترین کردار، ان کی بے ساختگی اور سادگی اور کہاں اس پر انڈین ’ڈھشوم ڈھشوم‘ کا تڑکا۔

اور پھر حال میں ہی معروف ہونے والے ڈرا مے ’میرے پاس تم ہو‘ کو ’کامنا‘ کے نام سے انڈیا میں بنایا گیا۔ تو وہی ہوا جو انڈین ڈراموں میں ہوتا چلا آیا ہے، نہ ختم ہونے والی کہانی، کرداروں کے فلمی انداز، میک اپ اور ملبوسات کے باعث پس منظر میں چلی جانے والی اداکاری اور میوزک ٹریک کے زور پر چلتے مناظر۔

صارفین کا خیال ہے کہ میرب کا کردار صرف یمنیٰ زیدی ہی کر سکتی ہیں

بہرحال انڈیا کے سوپ سیریلز دونوں ملکوں میں مقبول رہے ہیں اور پاکستانی مقبول ڈراموں کا ری میک بھی کمرشل بنیادوں پر کامیاب تجربے کے طور پر کیا گیا۔

’تیرے بن‘ میں ہیرو کی ماں کا کردار ادا کرنے والی بشریٰ انصاری نے اس ٹرینڈ کے حوالے سے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’وہ تو گانا بھی بنا لیتے ہیں تو اُن کو کون پکڑ لیتا ہے۔ ہم بھی بناتے ہیں لیکن وہ زیادہ بناتے ہیں۔ میرے کردار کی جگہ بھی کسی کو کھڑا کر لیں گے، کچھ بھی نام رکھ لیں گے۔ کیا کر سکتے ہیں۔‘

سرقہ (چوری) اور لیگل رائٹس کی بحث سے ہٹ کر، دونوں طرف ڈرامہ بنانے والے بھی اب جانتے ہیں کہ ان کا آرٹ اب سرحد کے پار بھی اتنی ہی رسائی رکھتا ہے جتنا ملک کے اندر، اس لیے جو بنتا ہے ’سب کے لیے‘ یعنی گلوبل آڈینس کے لیے بنتا ہے۔

اس لیے پاکستانی ڈرامے پر انڈین سوپ سیریل کی جھلک اور انڈیا میں پاکستانی سیریلز کے ری میک بڑھتے جا رہے ہیں۔